28 ستمبر 2016 - 15:57
عراق میں امریکہ کی مشکوک کاروائیاں اور شرمناک سازشیں

امریکی کانگریس کے ایک رکن نے عراقی کردستان کے علاقے کی حمایت سے صوبے نینوا کو مختلف ادیان کے لئے ایک آزاد علاقے میں تبدیل کئے جانے کی تجویز پیش کی ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ عراق میں امریکہ کی جاری مداخلت پسندانہ پالیسیوں کے دائرے میں، جو اب تشویشناک حد تک وسیع بھی ہوتا جا رہا ہے، امریکی کانگریس کے ایک رکن نے عراقی کردستان کے علاقے کی حمایت سے صوبے نینوا کو مختلف ادیان کے لئے ایک آزاد علاقے میں تبدیل کئے جانے کی تجویز پیش کی ہے۔

امریکی کانگریس کے رکن جیف فورٹنبیری نے ڈیموکریٹس اور ریپبلکن اراکین کی جانب سے عراق کے صوبے نینوا کے بارے میں ایک منصوبہ پیش کیا ہے۔ اس منصوبے میں نینوا میں مختلف اقوام و مذاہب کے پیروکاروں کی رہائش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس صوبے کو ایک آزاد علاقے میں تبدیل کئے جانے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف مہم کے بہانے عراق میں امریکی فوجیوں کی وسیع پیمانے پر موجودگی کے ساتھ ساتھ اس ملک کی تقسیم کے لئے امریکی منصوبوں کے انکشاف سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ عراق کو اس وقت امریکہ کی مشکوک کارروائیوں اور شرمناک سازشوں کا سامنا ہے۔ عراق میں موجود امریکی فوجیوں کی صحیح تعداد کے بارے میں مہینوں کی بحث و گفتگو کے بعد داعش کے خلاف امریکہ کے نام نہاد اتحاد کے امریکی ترجمان کرسٹوفر گارفر نے منگل کے روز عراق میں امریکی فوجیوں کی سات ہزار تعداد کا اعلان کیا۔ اگرچہ امریکہ نے اکتوبر دو ہزار چودہ سے داعش کے خلاف نام نہاد بین الاقوامی اتحاد تشکیل دے رکھا ہے جس کے بہانے سے امریکہ نے عراق میں اپنے فوجیوں کی تعداد میں اضافہ بھی کیا ہے تاہم عراق میں داعش اور دہشت گردی کے خلاف سنجیدہ مہم کا کبھی مشاہدہ نہیں کیا گیا اس لئے کہ داعش کے وجود کا خاتمہ، علاقے میں امریکی مقاصد سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ایسی صورت حال میں امریکی حکام، داعش تکفیری گروہ کے زیرقبضہ علاقوں کو واپس لینے کے لئے دہشت گردوں کے خلاف مہم میں امریکی فوجیوں کی شمولیت کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔ اس بات کے پیش نظر کہ حالیہ مہینوں کے دوران عراقی فوج اور عوامی رضاکار فورسز نے دہشت گردوں کے مقابلے میں اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ ان کامیابیوں میں خود کو شریک کرنے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ وہ اس طریقے سے عراق میں داعش کے بعد فتنہ انگیز پالیسیوں کو آگے بڑھانے کے لئے راہ بھی ہموار کرنا چاہتا ہے۔ اس سلسلے میں سیاسی حلقوں نے بارہا خبردار کیا ہے کہ امریکہ، عراق کی تقسیم کے ذریعے مشرق وسطی کے علاقے میں اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے اور نئی اسٹریٹیجی پر عمل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس بارے میں کچھ عرصے قبل امریکی کانگریس میں ایک منصوبہ بھی پیش کیا گیا جس میں عراق میں اہلسنّت مسلمانوں اور کردوں کی براہ راست مدد و حمایت پر تاکید کی گئی تھی۔ عراق کے سلسلے میں امریکہ کے تمام منصوبے اور اقدامات، مشرق وسطی کے علاقے میں اس کے ناپاک و شرمناک مقاصد کو ماضی سے کہیں زیادہ بے نقاب کر رہے ہیں۔ امریکی اقدامات، اس بات کے ترجمان ہیں کہ یہ ملک، بدستور مشرق وسطی میں اپنے تسلط پسندانہ منصوبوں کو آگے بڑھانے اور گریٹ مشرق وسطی سے موسوم منصوبے کے احیاء کی کوشش کر رہا ہے کہ جس کا اہم ترین مقصد علاقے کے بیشتر ملکوں کو تقسیم کرنا ہے۔ اسی منصوبے کے تحت عراق کو نشانہ بنائے جانے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے اور اسی لئے امریکی حکام، اپنے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ہر طرح کے ہتھیکنڈے استعمال کر رہے ہیں۔ امریکہ کی اس کارکردگی اور سازش پسندانہ چال کا عراق میں داعش کے خلاف امریکہ کی سرکردگی میں نام نہاد بین الاقوامی اتحاد کی خودپسندانہ کارروائیون اور سرگرمیوں میں مشاہدہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ عراق میں حکومت اور فوج سے کسی بھی قسم کی ہم آہنگی کے بغیر بین الاقوامی اتحاد کی کارروائیاں عملی طور پر اس ملک میں دہشت گردی کے خلاف سنجیدہ مہم میں رکاوٹ کا باعث بنی ہیں۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ امریکہ کے سیاسی و قانون ساز ادارے، مختلف طریقوں اور دہشت گردی کے خلاف مہم میں عراق کی مدد جیسے فریب کارانہ نعروں کے تحت عراق کے اقتدار اعلی کو نظر انداز اور اس ملک میں مداخلت پسندانہ قوانین کی منظوری کے ذریعے عملی طور پر عراق کو تقسیم کی طرف آگے بڑھانے کی جانب قدم اٹھا رہے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲۴۲

لیبلز